(پریشان اور بدحال گھرانوں کے الجھے خطوط اور سلجھے جواب)
بڑا آدمی بننے کا شوق
سوال : میری عمر 19 سال ہے۔ مجھ میں بچپن ہی سے بڑا آدمی بننے کا بہت شو ق ہے۔ لیکن میں آج تک ناکام رہا ہوں۔ لیکن اکثر لو گ مجھے نظر انداز کر دیتے ہیں۔ میں جب تنہا ہو تا ہوں تو میرے ذہن میں لو گوں کو اپنی طر ف متوجہ کرنے کے بہت سے طریقے آتے ہیں۔ لیکن عملی طور پر کوئی بھی کامیا ب ثابت نہیں ہو تا اس کی وجہ سے بڑی بے چینی اور کشمکش کا شکا ر ہوں۔ از راہ کرم میری راہنمائی کریں۔ ( اسلم جمال، کوئٹہ )
جوا ب :۔ اگر آپ کو بڑا آدمی بننے کا بہت شوق ہے تو آپ ناکام نہیں ہوں گے، ” بہت شوق “ شر ط ہے۔ شوق خود راستہ بنا لیتا ہے۔ اور راستے کی رکا وٹوں اور مصیبتوں کو برداشت کرنے کی طا قت بھی عطا کرتا ہے۔ راستے میں گڑھے بھی آتے ہیں اور پہا ڑ بھی، لیکن شوق گر گر کر اُٹھ بیٹھتا ہے۔ اور ہا تھ جھا ڑ کر پھر دوڑنے لگتا ہے۔ آپ نے شکاری کو دیکھا ہو گا کہ سخت سردی یا گرمی میں، جنگل بیابان میں، گرم ریت اور گہرے گڑھوں کے باوجود، خطرات مول لیتا ہوا جنگلی درندوں اور طر ح طر ح کے کیڑوں مکوڑوں سے بچتا ہو ا چلا جا تا ہے۔ ہمت نہیں ہارتا۔ شکار کر کے ہی چھوڑتا ہے۔ آپ کو اگر ”بڑ ا پن “ شکار کر نا ہے تو ایسا ہی شوقِ فراواں پیدا کیجئے۔ لو گ ایک بار توجہ نہیں کر تے تو ما یو س نہ ہوں مستقل مزاجی سے کام لیں۔ ایک بات بتاﺅں۔ لو گ ایسے آدمی کو زیادہ پسند کرتے ہیں جو ان کی زیا دہ سنے اور خود کم بولے۔ آپ لو گوں کی باتیں توجہ سے سننے کی عادت ڈالیے، پھر دیکھئے لو گ چاہیں گے آپ اُن سے ملیں، لیکن میں نے کم بولنے کا مشورہ دیا ہے۔ اس کا مطلب بالکل نہ بولنا یا گونگا بن جا نا نہیں ہے۔ لو گوں کی باتوں کو آگے بڑھانے کے لے اُن سے سوال کیجئے۔ خو د بھی رائے دیجئے۔ ان کی تائید یا تردید بھی کیجئے، لیکن تردید کرنے کے لیے پہلے تائید سے با ت شروع کیجئے۔ جب آپ لو گوں میں زیادہ اٹھنے بیٹھنے لگیں گے تو آپ کی جھجک بھی نکل جائے گی اور آپ کو بات کر نی بھی آجائے گی۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ شوق کے ساتھ ساتھ مقصد متعین کرنا بھی ضروری ہے۔ بڑا بننے کے لیے کوئی ایک شعبہ، کوئی ایک میدان، کوئی ایک موضوع منتخب کرکے اس میں مہارت پیداکرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ کو ئی آدمی ہر میدان کا مرد نہیں ہو سکتا۔ آج کل تو علم نے اتنی وسعت اختیار کر لی ہے کہ کوئی شخص ہر علم میں ماہر و کامل نہیں ہو سکتا۔ اب آپ فیصلہ کیجئے کہ آپ کیا بننا چاہتے ہیں۔ پر وفیسر ؟ ڈاکٹر ؟ حکیم ؟ انجینئر؟ لیڈر ؟ ایڈیٹر ؟ .... جو بھی ارادہ ہو اس کی تیاری کیجئے۔ اسی کے مطابق تعلیم حاصل کیجئے۔ اسی میدان کے لو گوں سے ملیے۔ کتا بوں کے علا وہ رسالوں اور اخبار وں سے بھی اس مو ضو ع کی معلومات حاصل کیجئے۔ کچھ عرصے میں آپ کی معلو ما ت اتنی ہو جائیں گی کہ آپکو اپنے اوپر اعتما د پیداہو نے لگے گا اور یہ اعتماد آپ کا شو ق بھی بڑھائے گا۔
تھکن اور ذہنی تفکرات کا صحت پر برا اثر
سوال:۔ نیند کی کمی، تھکن، ذہنی تفکرات، یہ سب اگر ایک نوجوان میں آجائے تو وہ کام کا نہیں رہتا۔ برائے مہربانی اس کا علا ج اور ایک اچھی بات بتا دیں تا کہ انسان چھٹکا را پالے۔ (س۔ م، غزالہ، آصمہ، ننکانہ صاحب )
جواب :۔ آپ نے خو د ہی جوا ب لکھ دیا ہے کہ یہ با تیں کسی انسان کو کام کا نہیں چھوڑتیں۔ اب غور طلب بات یہ ہے کہ یہ کیفیت کیوں پیدا ہو تی ہے۔ اس کیوں کو سمجھنے کی کو شش کر یں۔ تو ان کا علا ج کیا جا سکتا ہے۔ سب سے پہلے تو یہ دیکھ لیجئے کہ نیند کی کمی کا کوئی جسمانی سبب تو نہیں ہے، مثلا ہاضمے کی خرا بی وغیرہ، اگر جسمانی سبب نہیں ہے تو پھر تھکن اور تفکرات ہی نیند کی کمی کا سبب ہوں گے۔ تفکرا ت کا مطلب کیا ہے ؟ زندگی کے مسائل کی طر ف سے غیر صحت مند ذہنی رویہ۔ جب مسائل اور مشکلا ت کو حل کرنے کے لیے آدمی صحیح طریقہ اختیار نہیں کر تا، تدبیر سے کام نہیں لیتا اور سعی و عمل سے گریز کر تا ہے تو اس کا ذہن پریشان ہو جاتا ہے اور ذہنی پریشانیاں مزید عملی پریشانیوں اور مشکلا ت کا سبب بنتی ہیں۔ اسی چکر کو تفکرا ت کہتے ہیں اگر آدمی اپنے مسائل کو صحیح طریقے سے سمجھے، ان کے اسباب تلا ش کرے اور ان کو دور کرنے کے لیے عملی جدو جہد میں مصروف ہو جائے تو یہ ذہنی پریشانیاں کم ہو جا تی ہیں۔ اور پھر آدمی سکون اور اعتما د سے ان مسائل کو حل کر لیتا ہے۔ جب ذہن کو سکون حاصل ہو تو کا م کر کے بھی آدمی اتنا نہیں تھکتاکہ نڈھال ہوجائے اور اس کی نیند اڑ جائے۔
عجیب سا خوف ذہن پر مسلط رہتا ہے
سوال :۔ میری عمر 30 سال ہے۔ شادی شدہ ہوں۔ کار و با ر بھی اچھا ہے۔ مگر سکون نہیں دل میں ہر وقت خوف سا طاری رہتا ہے۔ اکیلا نہیں سو سکتا۔ مختلف خیالات خوف زدہ کرتے رہتے ہیں۔ کو ئی چیز کھاﺅں تو وہم رہے گا کہ نہ جا نے کیا ہو جائے گا۔ کسی بیما ر کو دیکھتا ہوں تو ڈرتا ہوں کہ بیماری مجھے نہ لگ جا ئے۔ پہروں خامو ش رہتا ہوں۔ کبھی بالکل خامو ش رہتا ہوں اور کبھی لگا تا ر بولنا شرو ع کر دیتا ہوں۔ جہاں موت کا ذکر ہو امجھے ایک جھٹکا سا لگا۔ اکیلا سفر نہیں کر سکتا۔ یہ صر ف دوتین سال سے ہے۔( اختر گو ندل، گو جرانوالہ )
جواب : محترم !خوف اور بالخصوص مو ت کا خوف عموماً مندرجہ ذیل وجو ہ سے جنم پا تا ہے۔ توجہ اور ہمدردی کی آرزو کی وجہ سے، حالات سے بیزاری کی بدولت اور بچپن کے کسی حادثے کی بنا پر۔ لا شعور پیار اور توجہ کا متمنی ہو تا ہے تو عموماً ایسی حرکتیں کرواتا ہے۔ جس سے دوسروں کی توجہ حاصل ہو جائے۔ خوف کے اظہا رسے دوسروں کے ساتھ رہنے کی آرزو، دوسروں کو اپنے ساتھ رکھنے کی اور اپنی طرف متوجہ کرنے کاایک بہانہ مل جا تاہے۔ یعنی لا شعور دوسروں کو دھوکہ دیتا ہے تو خود اپنے آپ کو بھی فریب میں مبتلا رکھتا ہے۔ ماحول سے بیزاری کی وجہ سے فراریت کی تمنا پیدا ہو تی ہے۔ اور کبھی کبھی یہ تمنا مو ت کی آرزو میں بدل جا تی ہے۔ ایک دو بار شدید خوا ہش کے بعد مو ت کا ایک مسلسل خوف سا ذہن پر مسلط ہو جاتا ہے۔ بچپن کے حالات اور دبے ہوئے حادثات کسی خا ص واقعہ سے تحریک پا جا تے ہیں۔ اور دبی ہوئی باتیں اس تحریک سے لا شعور سے تحت الشعور میں آکر تو کھلبلی سی پیدا کر دیتی ہیں۔ مگر شعو ر میں آنے نہیں پاتیں۔ آپ کے مکمل حالا ت کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ کہ آپ کی زندگی میں ان تین وجو ہا ت میں سے کون سی وجہ ہے۔ خطو ط کے ذریعہ ایسا کرنا ناممکن ہے ہاں اگر آپ تنہائی میں مکمل یکسوئی کے ساتھ اپنے بچپن کی طر ف لو ٹنے کی کو شش کریں تو ممکن ہے بتدریج یہ لا شعوری حادثہ شعور میں ابھر آئے۔ مگر یہ عمل بڑا صبر آزما ہو گا اور مسلسل محنت کے بعد ہی آپ لا شعور اور شعور کے درمیان محتسب کو جھنجھوڑ سکیں گے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں